فیضانِ
اَمیرالمؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
خلیفۂ سوم امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کنیت
"ابوعمرو" اور لقب والنورین"(دونوروالے)ہے۔
آپ قریشی ہیں اورآپ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن
عبدشمس بن عبدمناف۔ آپ کاخاندانی شجرہ "عبد مناف" پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نسب
نامہ سے مل جاتاہے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آغاز
اسلام ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اورآپ کو آپ کے چچا اوردوسرے خاندانی کافروں
نے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے بے حد ستایا۔ آپ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی پھر مدینہ منورہ
کی طرف ہجرت فرمائی ا س لئے آپ "صاحب الہجرتین" (دو ہجرتوں والے)کہلاتے
ہیں اور چونکہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دو صاحبزادیاں یکے
بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اس لئے آپ کا لقب "ذوالنورین"ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ بدر کے علاوہ دوسرے
تمام اسلامی جہادوں میں کفار سے جنگ فرماتے رہے ۔ جنگ بدر کے موقع پر ان کی
زو جہ محترمہ جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صاحبزادی تھیں ، سخت علیل ہوگئیں تھیں اس لئے
حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو جنگ بدر میں جانے سے منع فرمادیالیکن
ان کومجاہدین بدر میں شمار فرماکرمال غنیمت میں سے مجاہدین کے برابر حصہ دیا اور
اجروثواب کی بشارت بھی دی۔ حضرت امیرالمؤمنین عمرفاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کے بعد آ پ
خلیفہ منتخب ہوئے اوربارہ برس تک تخت خلافت کو سرفراز فرماتے رہے ۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ
کے دورخلافت میں اسلامی حکومت کی حدود میں بہت زیادہ توسیع ہوئی اور افریقہ وغیرہ
بہت سے ممالک مفتوح ہوکر خلافت راشدہ کے زیر نگیں ہوئے ۔ بیاسی برس کی عمر میں مصر
کے باغیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیا اور بارہ ذوالحجہ یا اٹھارہ ذوالحجہ ۳۵ھ جمعہ کے دن ان باغیوں
میں سے ایک بدنصیب نے آپ کو رات کے وقت اس حال میں شہیدکردیا کہ آپ قرآنِ پاک
کی تلاوت فرما رہے تھے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے خون کے چند
قطرات قرآن شریف کی آیت فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ترجمہ
کنزالایمان: تو اے محبوب عنقریب اللہ انکی
طرف سے تمہیں کفایت کریگا۔(پ۱، البقرۃ:۱۳۷) پر پڑے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جنازہ کی نماز حضور
اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پڑھائی اورآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینہ منورہ کے قبرستان
جنت البقیع میں مدفون ہیں۔(2) ( کراماتِ صحابہ ،ص ۸۸ تا ۸۹ )
فیضانِ اَمیرالمؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
نُور کی سرکار سے پایا دو
شالہ نُور کا
ہو مبارَک تم کو
ذُوالنُّورَین جوڑا نور کا
(حدائقِ بخشش شریف)
فرمان مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :
روایت ہے حضرت عبدالرحمن ابن خباب سے فرماتے ہیں کہ میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی خدمت میں حاضر ہوا آپ عسرت کے لشکر پر
رغبت دے رہے تھے تو جناب عثمان کھڑے ہوکر
بولے یا رسول الله میرے ذمہ الله کی راہ میں سو اونٹ ان کے کمبل اور پلان کے سات
حضور نے اس لشکر کے متعلق پھر رغبت دی پھر جناب عثمان کھڑے ہوگئے عرض کیا میرے ذمہ
دو سو اونٹ ہیں مع ان کے کمبل کے اور پلان کے حضور نے پھر رغبت دلائی تو عثمان
کھڑے ہوگئے بولے میرے ذمہ الله کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ان کے کمبل و پالان
کےتو میں نے رسول الله صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ حضور انور منبر سے اتر رہے ہیں اور
فرما رہے ہیں کہ اب اس کے بعد عثمان پر کوئی گناہ نہیں وہ جو بھی کریں اس کے بعد
عثمان پر کوئی گناہ نہیں وہ جو بھی کر یں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰ ۃ المصابیح،
جلد ہفتم،ص۳۱۴) بحوالہ(ترمذی)
فرمان مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
اپنے گھر میں لیٹے تھے اپنی رانیں یا اپنی
پنڈلیاں کھولےتو جناب ابوبکر نے اجازت مانگی انہیں اجازت دی اسی حالت پر انہوں نے
کچھ بات چیت کی،پھر حضرت عمر نے اجازت مانگی انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی
پھر انہوں نے بھی بات چیت کی،پھر جناب عثمان نے اجازت مانگی تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کرلیے جب وہ
چلے گئے تو جناب عائشہ نے کہا کہ جناب ابوبکر آئے آپ نے ان کے لیے نہ تو جنبش کی
اور نہ ان کی پرواہ کی پھر عمر آگئے تو آپ نے ان کے لیے نہ تو جنبش کی اور نہ ان
کی پرواہ کی پھر جناب عثمان آئے پھر تو آپ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کرلیے تو فرمایا میں اس شخص
سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جناب عثمان
شرمیلے آدمی ہیں مجھے خوف ہوا کہ اگر میں نے انہیں اسی حالت پر اجازت دے دی تو وہ
مجھ تک اپنی حاجت نہ پہنچاسکیں گے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰ ۃ المصابیح، جلد
ہفتم،ص۳۱۱) بحوالہ (مسلم)
فرمانِ اَمیرالمؤمنین
حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ:
'' اے لوگو !یقینا
اللہ عَزَّ وَجَلَّنے تمہیں دنیا اس لئے عطا فرمائی ہے کہ تم اس
کے ذریعے آخرت کی تیاری کرو،اس لئے عطانہیں فرمائی کہ تم اس کی طرف جھک
جاؤ،۔۔۔۔۔۔کیونکہ دنیاتوفانی ہے اورآخرت باقی رہنے والی ،۔۔۔۔۔۔توکہیں فانی تمہیں
اپنی طرف نہ کھینچ لے اورباقی رہنے والی سے غافل کردے،۔۔۔۔۔۔تم فانی ہونے والی(
دنیا) پرباقی رہنے والی (آخرت) کوترجیح دو،۔۔۔۔۔۔ یقینا دنیا ختم ہوکررہے گی
،۔۔۔۔۔۔اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ
کی بارگاہ میں ہی لوٹ کرجانا،۔۔۔۔۔۔ اللہ
عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرتے رہوکیونکہ خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ ،عذاب
کے آگے ڈھال اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ
کی بارگاہ میں وسیلہ ہے ۔''
فرمانِ اَمیرالمؤمنین
حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ:
’’ اگرمجھے جنّت و دوزخ کے
درمیان کھڑا کیا جائے لیکن مجھے یہ نہ پتاہو کہ مجھے کس طرف جانے کا حکم ہو گا تو
میں یہ پسند کروں گاکہ راکھ ہوجاؤں ، اس سے پہلے کہ مجھے کسی طرف جانے کا حکم دیا
جائے۔‘‘ (اَلزُّہْد لِلامام اَحمد ص۱۵۵حدیث۶۸۶)
وقت شہادت اَمیرالمؤمنین حضرتِ سیدنا عثمانِ
غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کی دعا:
جب حضرت سيدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی
شہادت کے وقت آپ کا خون آپ کے چہرے پر بہا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
نے يہ دعا مانگی: '' لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ
کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْن ۔اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْتَعِيْنُ بِکَ عَلَيْھِمْ وَ
اَسْتَعِيْنُکَ عَلٰى جَمِيْعِ اُمُوْرِیْ وَ
اَسْئَلُکَ الصَّبْرَ عَلٰی مَآ اَبْلَيْتَنِیْ ترجمہ : تيرے سوا کوئی
معبود نہيں، تو پاک ہے، بے شک مجھ سے بے جاہوا۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ميں
ان کے مقابلے ميں تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور اپنے تمام امور ميں تجھ سے مدد چاہتا
ہوں اور تو نے مجھے جس آزمائش ميں مبتلا فرمايا ہے ميں اس پر صبر کا سوال کرتا ہوں
۔''(کتاب الکبائر،فصل فی
التعزیۃ ،ص۲۲۰)
بے نظیر ضیافت
ایک مرتبہ حضرت
عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی ضیافت کی اور عرض کیا: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
! میرے غریب خانہ پر اپنے دوستوں سمیت
تشریف لائیں اور ماحضر تناول فرمائیں۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے یہ دعوت قبول فرمالی اور وقت پر مع
صحابہ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لے چلے، حضرت
عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کے پیچھے چلنے لگے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کا ایک ایک قدم مبارک جو ان کے گھر کی طرف
چلتے ہوئے زمین پر پڑرہا تھا گننے لگے، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے دریافت فرمایا:اے عثمان! یہ میرے قدم
کیوں گن رہے ہو؟ حضرت عثمان رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے
عرض کیا: یا رسول اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں چاہتا ہوں
کہ حضور کے ایک ایک قدم کے عوض میں آپ کی تعظیم و توقیر کی خاطرایک ایک غلام آزاد
کروں چنانچہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے
گھر تک حضور کے جس قدر قدم پڑے اسی قدر غلام حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے
آزاد کئے۔ (جامع المعجزات، ص۲۵۷)